لیکھنی ناول -20-Oct-2023
تُو عشق میرا از قلم عائشہ جبین قسط نمبر1
کمرہ سرخ گلابوں سے مہک رہا تھا ۔پورے کمرے کی سجاوٹ سرخ گلاب اور کینڈلز سے سجایا گیا تھا۔ کمرے میں ہلکی سی ٹھنڈک تھی ۔ وہ ڈیپ ریڈ لہنگے میں دلہن بنی جہازی ساٸز کے بیڈ کے درمیان بیٹھی تھی۔ اس کا گھیردار لہنگا بیڈ پر بڑی نفاست سے اس کی چھوٹی نند سیٹ کرکے گی تھی ۔ بلاشبہ وہ بہت حسین تھی۔ پر آج تو وہ اپنا پور پور اپنی بچپن کی محبت کے لیے سجاۓ دلہن بنی نہایت حسین لگی رہی تھی اتنی کے بیوٹیشن نے اس کو اپنے پورے 10 سالہ کرٸیر کی حسین دلہن کا خطاب دیا تھا۔ وہ جو ہمیشہ سادہ رہتی تھی۔ آج تو سولہ سھنگار کیے کسی کے بھی حواس لوٹ سکتی تھی اس کی سب کزنز اور سلہلیاں اسکو چھیڑ رہی تھی ۔ابھی ہنسی مذاق کاسلسہ جاری ریتا پر اس کی عانی یعنی ساس نے آکر سب کو اس کے کمرے سے جانے کابولا
سب کے جانے کے بعد وہ اس کے پاس بیٹھی اوراسکے حناٸی ہاتھ تھام کر بولی ہادیہ میرا بچہ آج سے یہ گھر اس کے سارے لوگ تمھارے اپنے ہیں ان سب کوتم سے بہت محبت ہے یہ تمھاری عزت کریے گے اور مجھے امید ہے تم بھی ان سب سے پیار محبت سے رہوں گی اور سب کی عزت کرو گی
جی عانی آپ بے فکر رہیے آپ کو مجھے سے کوٸی شکایت نہیں ہوگی یہ سب میرے اپنے ہیں وہ پورے اعتماد سے بولی
شاباش میری اچھی بیٹی اورہا ں کبھی بھی کوٸی مسٸلہ یا پریشانی ہو تم نے فورا مجھے یا اپنے انکل کو بتانا ہے ۔ اوکے اب تم ریسٹ کرو میں علی کو بیھجتی ہوں وہ اس کا ماتھا چوم کر بولی اور روم سے باہر چلی گی جب کہ علی کے نام پر اس کا دل زور سےدھڑکا تھا اس نے اپنےہاتھوں کو دیکھا جہاں اس کی مہندی کا رنگ بہت تیز تھا کل جب اس کی مہندی کی رسم کے بعد اس کی چھوٹی نند اس کومہندی لگا رہی تھی تو یہٕی بول رہی تھی کہ اس کی مہندی کارنگ بہت تیز ہوگا بلکہ ان کے پیار کی طرح اورآج اپنے ہاتھوں کو دیکھ کر اس کے لبوں پر شرمیلی سی مسکراہٹ پھیلی تھی۔
☺☺☺☺☺
وہ بلیک شروانی میں بہت ہیڈسم لگ رہا تھا۔ اس کے سب دوست ا سکو گھیرے بیٹھے تھے کوٸی اس چٹکلہ سنا رہا تھا تو اس کو اپنے ایکپرنس کی بنا پر مشورے دے رہا تھا۔ مگر وہ غاٸب دماغی سے ان کی باتیں سن رہاتھا کافی دیر بعد اس کے بڑے بہنونی نے اس کوٹہوکا دیا کیا بات ہے شہزادے آج کوٸی جواب نہیں دے رہا ابھی سے تیری بولتی بند ہوگی ہے ۔ سب کے مشترکہ قہقے سے وہ واپس ہوش کی دنیا میں آیا کیا کیا بولے رہے تھے آپ ارشد بھاٸی میں سمجھا نہیں آپ کی بات میں کچھ اور سوچ رہا تھا
ہاں ہاں پتا ہے آج تو ہماری کہاں سنے گا اور جو تو سوچ رہا ہے وہ بھی ہم سب جانتے ہیں حیدر جواس کا قریبی دوست تھا اس کے کندھے پر ہاتھ مار کر بولا تو سب علی کو دیکھ کر ہنسنے لگے نہیں نہیں ایسی کوٸی بات نہیں وہ ہونق پن سے اپنے بڑے بھاٸی نجف اور بہنوٸی ارشد کو دیکھنے لگا جو اس کو ایسے صفاٸی دیتا دیکھ کر بے ساختہ ہنسے تھے میرا خیال ہے بھاٸی اب اس کو جانے دیتے ہیں مزید اس کی بددعا نہیں لیتے دل میں ہمیں کلو کلو کی گالیاں دے رہا ہوگا یہ بھولے منہ والا حیدر نے اس ک مذاق اڑایا جبکہ علی نےاس کو گھور کر دیکھا دیکھ میرے منہ مت لگ ورنہ بہت برا ہوگا تیرے ساتھ وہ حیدر کو وران کرتے ہوۓ بولا بولنے کی ضرورت نہیں ہم سب جانتے اب تو ہمارے منہ نہیں لگے گا اور جس کے لگنا چاہتا ہے آج تجھے ہم بھی اس کے لگنے نہیں دیے گے وہ ڈھٹاٸی سے ہنستے ہوۓ بولا تو علی کا منہ سرخ ہوگیا ٹھہر جا تجھے تو بتاتا ہوں میں وہ حیدر کی طرف لپکا تو اس کو اس کے بھاٸی نجف نے پکڑا چھوڑ یاراتنا مذاق تو چلتا ہے سب چھوڑ یہ دیکھو یہ بلش کتنا کررہا کب سے خاموش بیٹھے عبداللہ نے پہلی بار بول کر سب کو علی کے چہرے کی طرف متوجہ کیا جو نہایت سرخ ہورہا تھا۔ اوے اوے کیابات ہے شہزادے کی سب اس کو گھیرے کھڑے تھے۔ جب اس کی بڑی بہن مریم آٸی کیا کررہے ہویہ آپ سب وہ سب کو گتھم گتھا دیکھ کر چلاٸی کچھ نہیں بیگمہم ایسے ہی ہنسی مذاق کررہے تھے۔ سب سےپہلے ارشد علی سے الگ ہوا اور تم کیاکرنے آٸی ہو جاو جاکر ریسٹ کرو تھک گی ہوگی ۔ وہ بڑی متانت سے بولے جی میں تو آرام کرہی لوں گی ابھی تو میں علی کو بلانے آٸی تھی۔ چلو تمھیں امی بلا رہی ہیں اور آپ سب بھی اپنےٹھکانو ں پر جاٸیں وہ سب کودیکھ کر بولی اور علی کو ساتھ لے کر گھر کے اندر چلی گی
وہ دونوں علی کے روم کے دروازے کے پاس سے گزرے تو مریم نے علی کو روکا وہ روکا تو جواب طلب نظروں سے اپنی بہن کو دیکھنے لگا ۔بدھو امی نہیں بلارہٕی انہوں نے بولا ہے بہت ٹاٸم ہوگیا ہے اب اپنے روم میں جاو اس وجہ سے ان کے سامنے امی کا بولا ایسے تو وہ سب تمھیں آنے نہ دیتے جاو اب ہادیہ کب سے تمھارا ویٹ کررہی ہے ٹھیک ہے جاو آپ بٕبھی آرام کرو وہ دروازے کے ناب پر ہاتھ رکھے کھڑا تھا کچھ دیر پہلے والٕی مسکراہٹ اب چہرےسے غاٸب تھی عجیب سے وحشت اورسختی اب اس کے چہرے پرنظر آرہی تھی۔
وہ دروازہ کھول کر اندر آیا تو یہاں باہر کی طرح سردی محسوس نہیی ہورہی تھی کمرے میں فسوں خیز خاموشی تھی جسکو اس کے قدموں کی چاپ نے تھوڑا تھا وہ دھیرے دھیرے چلتا ہوا بیڈ کے قریب آیا اور گلہ کہنکارا اور اپنی شریک حیات سے مخاطب ہوا تم باز نہیں آٸی نا کتنا روکا تھا میں نے تمہیں یہ سب کرنے سے پر تمیں سب مذاق لگا اور لگا میں بکواس کررہا ہوں چلو کوٸی اب پتا چلے گا تمھیں میری بات نہ ماننے کا انجام اٹھو یہاں سے کھڑی ہوجاو فورا ہادیہ جس کا دل پہلے ہی اپنی رفتار سے زیادہ دھڑک رہا تھا ۔ علی کے لب ولہجے سےپل بھر کےلیے دھڑکنابھول گیا وہ اس کو خالی خالی نظروں سے دیکھنے لگی ۔اسکو علی کی سرخ آنکھوں سےڈر لگنے لگا کیا بکواس کی ہے میں نے اٹھو یہاں سے فورا ورنہ مجھے برا کوٸی نہ ہوگا وہ ایک دم دہاڑا جس پر وہ پل بھر میں بیڈ سے نیچے اتری اور اس کاپاوں مڑا تو اس نے علی کو کندھوں سٕے تھام پل بھر کے لیے ان کی نظریں ملی تو جیسے علی کی نظروں نے پلٹنے سے انکار کردیا کافی دیر تک وہ یوں ہی بے خود سا ہادیہ کو دیکھتا رہا کچھ یاد آنے پر اس کو دھکا دے کر خود سے الگ کیا اور اپنی خفت مٹانے کے لیے اس پر چڑھ دوڑا کیا کررہی ہو یہاں میرے کمرے میں جاو نکل جاو یہا ں سے دفعہ ہوجاو مگر میں کہاں جاو اس وقت اور آج ہی تو شادی ہوٸی ہت ہماری تم ایسے کٕیوں کررہے ہو میرے ساتھ میرا قصور کیا ہے وہ روہانسی ہوکر بولی شادی شادی کی بات مت کرو مجھے کتنا منع کیا تھا تم کو یہ سب کرنے سے اب بھگتو نہ میرے دل میں اور نہ میرے کمرے میں جگہ ہے تمھارے لیے اب جاو شکل گم کرو اپنی اور رو کر مت دکھاو مجھے ان آنسو کا مجھے پر کوٸی اثرنہیں ہوگا نکلو میرے کمرے سے ابھی کےابھی ورنہ جو ہوگا اس کا میں ذمہ دار نہیں ھونگا وہ اس کو گسھٹتے ہوۓ بولا علی تمھیں اللہ کاواسطہ ایسے مت کرو میں کہاں جاو گی باہرسب مہمان ہیں کیا سوچیے گے وہ کچھ تو سوچو تم نے سوچا تھا مانی تھی میری بات وہ اس کو دیوار کے ساتھ لگا کر اس کے دونوں طرف ہاتھ رکھ کر بولا علٕی تمھاری آنھکیں اتنی ریڈ کٕیوں ہورہی ہیں تم ہوش میں تو ہو کیوں کر رہے ہویہ سب ششششششش ایک اور لفظ نہیں ورنہ ورنہ میں کیاکر گزرو ں مجھے خود پتا نہیں تم نکلو میرے روم سے اور کوٸی نشہ نہیں کیاہوا میں نے پورے ہوش وحواس میں ہوں میں چلو شاباش جاو یہاں سے مگر میں کہاں جاو تم بات کو سمجھو
میں سمجھو ہاں میں سمجھو تم نے سمجھی تھی میری بات مانی تھی میری بات جو اب مجھے سے امید کررہی ہوں تم تم ایسے کرو وہ اپنے کمرے میں چاروں طرف دیکھتے ہوۓ بولا ہاں تم ادھر جاو اس نے اپنے کمرے کے ساتھ جوڑی چھوٹی سی جگہ کی طرف اشارہ کیا جہاں اسکے شوق کے بنا پر ڈھیروں گملے پڑے ہوۓ تھے یہ سب بھی میں امی کی وجہ سے کررہا ہوں کہ ان کو کل کسی کو جواب نہ دینا پڑے چلو چلو نکلو وہ اس کوگھٹستے ہوۓ وہاں دھکا دے چکا تھا اور اب گلاس ڈور بند کرکے خود کو ریلکس کرنے کی غرض سے واشروم میں چل گیا ۔ جبکہ وہ باہر سردی میں کھڑی اپنی غلطی یاد کرنے لگی جس کی بنا پر اس کے ساتھ پہلی رات یہ سلوک کیا گیا تھا ۔ آنسو خود بخود اس کے گال بھگو رہے تھے وہ روتے روتے نیچھے بیٹھتی جارہی تھی